یہ کیا ستم ظریفیٔ فطرت ہے آج کل
بے گانگی شریک محبت ہے آج کل
غم ہے کہ ایک تلخ حقیقت ہے آج کل
دل ہے کہ سوگوار محبت ہے آج کل
تنہائی فراق سے گھبرا رہا ہوں میں
میرے لیے سکوں بھی قیامت ہے آج کل
ہر سانس ترجمان غم دل ہے ان دنوں
ہر آہ پردہ دار حکایت ہے آج کل
میری وفا ہی میرے لیے قہر بن گئی
اپنی وفا پہ ان کو ندامت ہے آج کل
پھر چاہتا ہوں اک الم تازہ تر شکیلؔ
پھر دل کو جستجوئے مسرت ہے آج کل
غزل
یہ کیا ستم ظریفیٔ فطرت ہے آج کل
شکیل بدایونی