یہ کیا کہ خلق کو پورا دکھائی دیتا ہوں
مگر میں خود کو ادھورا سجھائی دیتا ہوں
اجل کو جا کے گریبان سے پکڑ لائے
میں زندگی کو وہاں تک رسائی دیتا ہوں
میں اپنے جسم کے سب منقسم حوالوں کو
بنام رزق سخن کی کمائی دیتا ہوں
وہ زندگی میں مجھے پھر کبھی نہیں ملتا
میں اپنے خوابوں سے جس کو رہائی دیتا ہوں
مجھے صلہ نہ ستائش نہ عدل ہے مطلوب
میں اپنے سامنے اپنی صفائی دیتا ہوں
یہ شور میرا تخاطب نہیں سنے گا علیؔ
میں خامشی کو مکمل سنائی دیتا ہوں
غزل
یہ کیا کہ خلق کو پورا دکھائی دیتا ہوں
علی مزمل