یہ کیا کہ پہلے قریب ہونا بنا کے چلنا ہے فاصلہ پھر
کہ دشت قربت میں خود ہی کھونا تلاش کرنا ہے راستا پھر
سفر ہوا تھا جہاں سے جاری اسی جگہ پر ہے لوٹنا پھر
قدم قدم حادثوں سے لڑنا نہ ہم سے ہوگا یہ حوصلہ پھر
اسے اداسی میں یاد کرنا کہ یاد کر کے اداس ہونا
یہ پوچھ ہم سے ہے کتنا مشکل بکھرنا اور خود کو جوڑنا پھر
ہو آج کل تم نہیں رہو گے کوئی تو لے گا جگہ تمہاری
جہاں تھما تھا وہیں سے لیکن شروع ہوگا یہ سلسلہ پھر
نظر جو آئے وہ سچ نہیں ہے نظر کو کیوں کر نظر بھی آئے
کہ گرد چہرے سے مت ہٹاؤ لو توڑ ڈالو یہ آئنہ پھر
ہمیں جزیرے پہ جب اتارا تو اس سفینے پہ ناز کیوں ہو
کہ بحر ہستی کا ہے یہ حاصل تو اس سے بہتر تھا ڈوبنا پھر
کوئی یہاں مسکرا رہا ہے کسی کے آنسو چھلک رہے ہیں
سنا ہے میں نے مشاعرے میں ہوا ہے طالبؔ غزل سرا پھر
غزل
یہ کیا کہ پہلے قریب ہونا بنا کے چلنا ہے فاصلہ پھر
مرلی دھر شرما طالب