یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی
کہاں کی چیز تھی نادان نے دیکھو کہاں رکھ دی
اب اس دیوانگی پر کیوں نہ وارے جائیں ہم یارو
کہ جس نے خار کے منہ میں شگوفے کی زباں رکھ دی
زمانے کی نظر میں خار و خس تھے چار تنکے تھے
انہیں پر دل کے کاری گر نے بنیاد جہاں رکھ دی
ہم اپنی بے خودی میں گھر کا نقشہ بھول بیٹھے ہیں
کہاں ہے طاق نسیاں جس پہ تشویش زیاں رکھ دی
ہمارے عشق کے چرچے زمانے بھر میں ہوتے تھے
یہ کس نے دشمنی آخر ہمارے درمیاں رکھ دی
کرم کافی تھا تیرے سوزؔ کے برباد کرنے کو
ستم کے ہاتھ میں تلوار کیوں اے جان جاں رکھ دی

غزل
یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی
کانتی موہن سوز