EN हिंदी
یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی | شیح شیری
ye kis ne Dal kanTon ki qarib-e-ashiyan rakh di

غزل

یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی

کانتی موہن سوز

;

یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی
کہاں کی چیز تھی نادان نے دیکھو کہاں رکھ دی

اب اس دیوانگی پر کیوں نہ وارے جائیں ہم یارو
کہ جس نے خار کے منہ میں شگوفے کی زباں رکھ دی

زمانے کی نظر میں خار و خس تھے چار تنکے تھے
انہیں پر دل کے کاری گر نے بنیاد جہاں رکھ دی

ہم اپنی بے خودی میں گھر کا نقشہ بھول بیٹھے ہیں
کہاں ہے طاق نسیاں جس پہ تشویش زیاں رکھ دی

ہمارے عشق کے چرچے زمانے بھر میں ہوتے تھے
یہ کس نے دشمنی آخر ہمارے درمیاں رکھ دی

کرم کافی تھا تیرے سوزؔ کے برباد کرنے کو
ستم کے ہاتھ میں تلوار کیوں اے جان جاں رکھ دی