یہ کس مقام پہ ٹھہرا ہے کاروان وفا
نہ روشنی کی کرن ہے کہیں نہ تازہ ہوا
ہوئی ہے جب سے یہاں نطق و لب کی بخیہ گری
سوائے حسرت اظہار دل میں کچھ نہ رہا
اس اہتمام سے شب خوں پڑا کہ مدت سے
اجاڑ سی نظر آتی ہے شہر دل کی فضا
تمام عمر اسی کی تلاش میں گزری
وہ ایک عکس جو آئینۂ نظر میں نہ تھا
یہ کس نے آج دبے پاؤں دل میں آتے ہی
خیال و فکر کا قفل سکوت توڑ دیا
کچھ اس طرح سے تری یاد کی مہک آئی
کہ جیسے دامن صحرا میں کوئی پھول کھلا
شکست دل پہ رضاؔ ہم بھی ٹوٹ کر روئے
مگر نہ اتنے کہ سو ہی سکے نہ ہم سایا
غزل
یہ کس مقام پہ ٹھہرا ہے کاروان وفا
رضا ہمدانی