یہ کس مقام پہ پہنچا ہے کاروان وفا
ہے ایک زہر سا پھیلا ہوا فضاؤں میں
نشان راہ کی رکھتے تو ہیں خبر لیکن
زباں پہ تالے ہیں اور بیڑیاں ہیں پاؤں میں
پھرے ہیں مدتوں انسان کی تلاش میں ہم
وہ شہر میں نظر آیہ ہمیں نہ گاؤں میں
سر نیاز بھی اپنا کبھی نہ خم ہوگا
جھلک غرور کی ہے آپ کی اداؤں میں
زمیں سے تا بہ فلک ہر طرف تعفن ہے
گلوں کی بو کا پتہ کیا چلے ہواؤں میں
غزل
یہ کس مقام پہ پہنچا ہے کاروان وفا (ردیف .. ن)
ایوب صابر