EN हिंदी
یہ کس غم سے عقیدت ہو گئی ہے | شیح شیری
ye kis gham se aqidat ho gai hai

غزل

یہ کس غم سے عقیدت ہو گئی ہے

شہزاد احمد

;

یہ کس غم سے عقیدت ہو گئی ہے
غم دنیا سے فرصت ہو گئی ہے

ہم اپنے حال پر خود رو دیے ہیں
کبھی ایسی بھی حالت ہو گئی ہے

اگر دو دل کہیں بھی مل گئے ہیں
زمانے کو شکایت ہو گئی ہے

کہاں میں اور کہاں آلام ہستی
مگر جینا تو عادت ہو گئی ہے

ذرا سا غم ہوا اور رو دیے ہم
بڑی نازک طبیعت ہو گئی ہے

خبر کیا ہو جہاں والوں کی ہم کو
انہیں دیکھے بھی مدت ہو گئی ہے

سکوں ملنے لگا شہزادؔ مجھ کو
تڑپ جانے کی صورت ہو گئی ہے