یہ کس ادا سے چمن سے بہار گزری ہے
سلگ سلگ کے تمنا ہزار گزری ہے
حیات دل کی جو اک شب شمار کر بھی لوں
وہ ایک شب ہی بہت بے قرار گزری ہے
اڑا کے لے جو گئی دل کی سسکیاں بلبل
چمن چمن پہ قیامت ہزار گزری ہے
صبا نے چھو جو لیا خوشبوؤں کے آنچل کو
جبین گل پہ شکن ناگوار گزری ہے
یہ کس مقام پہ پہنچی ہے جستجو دل کی
وصال رت تھی مگر سوگوار گزری ہے
وفا اداس ہوئی تھی فریب کھا کھا کر
مری نگاہ سے گزری تو مشک بار گزری ہے

غزل
یہ کس ادا سے چمن سے بہار گزری ہے
اویس الحسن خان