EN हिंदी
یہ کس ادا سے چمن سے بہار گزری ہے | شیح شیری
ye kis ada se chaman se bahaar guzri hai

غزل

یہ کس ادا سے چمن سے بہار گزری ہے

اویس الحسن خان

;

یہ کس ادا سے چمن سے بہار گزری ہے
سلگ سلگ کے تمنا ہزار گزری ہے

حیات دل کی جو اک شب شمار کر بھی لوں
وہ ایک شب ہی بہت بے قرار گزری ہے

اڑا کے لے جو گئی دل کی سسکیاں بلبل
چمن چمن پہ قیامت ہزار گزری ہے

صبا نے چھو جو لیا خوشبوؤں کے آنچل کو
جبین گل پہ شکن ناگوار گزری ہے

یہ کس مقام پہ پہنچی ہے جستجو دل کی
وصال رت تھی مگر سوگوار گزری ہے

وفا اداس ہوئی تھی فریب کھا کھا کر
مری نگاہ سے گزری تو مشک بار گزری ہے