EN हिंदी
یہ کھیل بھول بھلیاں میں ہم نے کھیلا بھی | شیح شیری
ye khel bhul-bhulayyan mein humne khela bhi

غزل

یہ کھیل بھول بھلیاں میں ہم نے کھیلا بھی

مظہر امام

;

یہ کھیل بھول بھلیاں میں ہم نے کھیلا بھی
تری تلاش بھی کی اور خود کو ڈھونڈا بھی

مرا نصیب تھی ہموار راستے کی تھکن
مرا حریف پہاڑوں پہ چڑھ کے اترا بھی

یہ آرزو تھی کہ یک رنگ ہو کے جی لیتا
مگر وہ آنکھ جو شیطاں بھی ہے فرشتہ بھی

سمندروں سے گہر کب کے ہو گئے ناپید
بھنور کے ساتھ میں گہرائیوں میں اترا بھی

برہنگی پہ بھی گزرا قبائے زر کا گماں
لباس پر ہوا جزو بدن کا دھوکا بھی

گرجنے والے برستے نہیں یہ سنتے تھے
گزشتہ رات وہ گرجا بھی اور برسا بھی