یہ خیال تھا کبھی خواب میں تجھے دیکھتے
کبھی زندگی کی کتاب میں تجھے دیکھتے
مرے ماہ تم تو حجاب ہی میں رہے مگر
ہمیں تاب تھی تب و تاب میں تجھے دیکھتے
کبھی کوئی بابت حسن ہم سے جو پوچھتا
تو ہم اہل عشق جواب میں تجھے دیکھتے
کسی اور دھج سے بناتے تیرا مجسمہ
کبھی ہم جو عین شباب میں تجھے دیکھتے
کبھی دیکھتے تجھے تیرگی کے جمال میں
کبھی روشنی کے سراب میں تجھے دیکھتے
غزل
یہ خیال تھا کبھی خواب میں تجھے دیکھتے
طارق نعیم