یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو
سیاہ رات کے سناٹو تم بھی کب تک ہو
مسافرو کہیں تنہائیاں نہ بن جانا
کہ ساتھ ہو بھی اگر تم تو اک سبب تک ہو
یہ کج ادائی بہت کم نصیب ہوتی ہے
تم اپنے غم میں اکیلے ہو پھر بھی سب تک ہو
جو لوگ لوٹ کے خود میرے پاس آئے ہیں
وہ پوچھتے ہیں کہ اشہرؔ یہیں پہ اب تک ہو
غزل
یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو
اقبال اشہر قریشی