EN हिंदी
یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو | شیح شیری
ye KHauf kam hai mujhe aur chamko jab tak ho

غزل

یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو

اقبال اشہر قریشی

;

یہ خوف کم ہے مجھے اور چمکو جب تک ہو
سیاہ رات کے سناٹو تم بھی کب تک ہو

مسافرو کہیں تنہائیاں نہ بن جانا
کہ ساتھ ہو بھی اگر تم تو اک سبب تک ہو

یہ کج ادائی بہت کم نصیب ہوتی ہے
تم اپنے غم میں اکیلے ہو پھر بھی سب تک ہو

جو لوگ لوٹ کے خود میرے پاس آئے ہیں
وہ پوچھتے ہیں کہ اشہرؔ یہیں پہ اب تک ہو