EN हिंदी
یہ خاکی آگ سے ہو کر یہاں پہ پہنچا ہے | شیح شیری
ye KHaki aag se ho kar yahan pe pahuncha hai

غزل

یہ خاکی آگ سے ہو کر یہاں پہ پہنچا ہے

حسان احمد اعوان

;

یہ خاکی آگ سے ہو کر یہاں پہ پہنچا ہے
خمیر اٹھا تھا جہاں سے وہاں پہ پہنچا ہے

نگاہ حسن نے ترتیب الٹی کر ڈالی
کہ تیر نکلا نظر سے کماں پہ پہنچا ہے

ابھی تلک جو فدائے بنام عشق رہا
جو ہوش آیا تو سود و زیاں پہ پہنچا ہے

میں ظاہراً تو سخن سے بہ خوب واقف ہوں
دروں کا عکس اگرچہ زیاں پہ پہنچا ہے

خزان ہجر میں گلشن میں پھول کھلنے لگے
گزند یہ بھی دل ناتواں پہ پہنچا ہے