یہ خاکی آگ سے ہو کر یہاں پہ پہنچا ہے
خمیر اٹھا تھا جہاں سے وہاں پہ پہنچا ہے
نگاہ حسن نے ترتیب الٹی کر ڈالی
کہ تیر نکلا نظر سے کماں پہ پہنچا ہے
ابھی تلک جو فدائے بنام عشق رہا
جو ہوش آیا تو سود و زیاں پہ پہنچا ہے
میں ظاہراً تو سخن سے بہ خوب واقف ہوں
دروں کا عکس اگرچہ زیاں پہ پہنچا ہے
خزان ہجر میں گلشن میں پھول کھلنے لگے
گزند یہ بھی دل ناتواں پہ پہنچا ہے

غزل
یہ خاکی آگ سے ہو کر یہاں پہ پہنچا ہے
حسان احمد اعوان