یہ کون میرے علاوہ مرے وجود میں ہے
کہ ایک شور بلا کا مرے وجود میں ہے
یہ کس نے میری نظر کو بنایا آئینہ
یہ نور کس نے اجالا مرے وجود میں ہے
اس ایک فکر نے گھولے مری حیات میں غم
تو دور کیوں نہیں جاتا مرے وجود میں ہے
کوئی چراغ مری سمت بھی روانہ کرو
بہت دنوں سے اندھیرا مرے وجود میں ہے
جو بوند بوند جلاتی ہے تن بدن میرا
وہ آگہی کی تمنا مرے وجود میں ہے
میں ایک موج میں ہوں جب سے روشنی ملی ہے
یہ لگ رہا ہے کہ دنیا مرے وجود میں ہے
میں بند آنکھ سے دنیا کو دیکھ سکتا ہوں
اک ایسی چشم تماشا مرے وجود میں ہے
غزل
یہ کون میرے علاوہ مرے وجود میں ہے
عبدالرحمان واصف