یہ کون مانے کہ نا آشنائے راز ہے تو
مگر یہی کہ خداوند بے نیاز ہے تو
اس آستاں پہ جو سر ہے تو سرفراز ہے تو
نیاز مندیٔ عالم سے بے نیاز ہے تو
سمجھ میں آئے نہ آئے ادائے چارہ گری
مجھے تو ہے یہ بھروسا کہ چارہ ساز ہے تو
فنا نہیں ہے اجل عمر جاودانی ہے
وجود ہے وہ حقیقت کہ جس کا راز ہے تو
قبول کر مری داد اے مری سیہ بختی
حریف ظلمت تنہائی دراز ہے تو
نوازشیں تری مبہم سہی مگر اے دوست
یہ اعتبار ہے کیا کم کہ دل نواز ہے تو
بڑے مراحل دشوار سے گزرنا ہے
نیاز جادہ ہے اور منزل نیاز ہے تو
یہ مانتا ہے زمانہ کہ میں ہوں نازش صبر
یہ راز کوئی نہ سمجھا کہ میرا ناز ہے تو
ہے سر خوشی میں تجھے پاس غم کشاں مانیؔ
عجیب رند خدا ترس و پاک باز ہے تو
غزل
یہ کون مانے کہ نا آشنائے راز ہے تو
مانی جائسی