یہ کون ہے جو سر روزگار آیا ہے
کہا کہ عشق کا پروردگار آیا ہے
وہ ایک طائر بے پر عذاب میں جل کر
سب ہجرتوں کی مسافت گزار آیا ہے
ہمیں نہ وصل کے قصے سناؤ رہنے دو
ہمارے حق میں فقط انتظار آیا ہے
جو آیا شہر عدم سے جہان ہستی میں
یہ واقعہ ہے کہ بے اختیار آیا ہے
یہ کیا وصال کہ آخر مری محبت پر
بوقت مرگ اسے اعتبار آیا ہے
اسے خبر ہی نہیں دل رہ محبت میں
غم حیات کا صدقہ اتار آیا ہے
قتیل شوق نظر ہجرتوں کا مارا قمرؔ
تمہارے شہر سے بس اشک بار آیا ہے

غزل
یہ کون ہے جو سر روزگار آیا ہے
قمر عباس قمر