EN हिंदी
یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی | شیح شیری
ye kaun chhoD gaya us pe KHamiyan apni

غزل

یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی

دوجیندر دوج

;

یہ کون چھوڑ گیا اس پہ خامیاں اپنی
مجھے دکھاتا ہے آئینہ جھریاں اپنی

بنا کے چھاپ لو تم ان کو سرخیاں اپنی
کنویں میں پھینک دی ہم نے تو نیکیاں اپنی

بدلتے وقت کہ رفتار تھامتے ہیں حضور
بدلتے رہتے ہیں اکثر جو ٹوپیاں اپنی

قطاریں دیکھ کے لمبی ہزاروں لوگوں کی
میں پھاڑ دیتا ہوں اکثر سب عرضیاں اپنی

نہیں لحاف غلافوں کی کون بات کرے
تو دیکھ پھر بھی گزرتی ہیں سردیاں اپنی

ذلیل ہوتا ہے کب وہ اسے حساب نہیں
ابھی تو گن رہا ہے وہ دہاڑیاں اپنی

یوں بات کرتا ہے وہ پر تپاک لہجے میں
مگر چھپا نہیں پاتا وہ تلخیاں اپنی

بھلے دنوں میں کبھی یہ بھی کام آئے گا
ابھی سنبھال کے رکھ لو اداسیاں اپنی

ہمیں ہی آنکھوں سے ان کو سنانا آتا نہیں
سنا ہی دیتے ہیں چہرے کہانیاں اپنی

مرے لئے مری غزلیں ہیں کینوس کی طرح
اکیرتا ہوں میں جن پر اداسیاں اپنی

تمام فلسفے خود میں چھپائے رہتی ہیں
کہیں ہیں دھوپ کہیں چھاؤں وادیاں اپنی

ابھی جو دھند میں لپٹی دکھائی دیتی ہیں
کبھی تو دھوپ نہائیں گی بستیاں اپنی

بلند حوصلوں کہ اک مثال ہیں یہ بھی
پہاڑ روز دکھاتے ہیں چوٹیاں اپنی

بھلا رہی ہے تجھے دھوپ دویج پہاڑوں کی
تو کھولتا ہی نہیں پھر بھی کھڑکیاں اپنی