یہ کشمکش منعم و نادار کہاں تک
سرمایہ و محنت کی یہ تکرار کہاں تک
ٹوٹے گی نہ ظلمات کی دیوار کہاں تک
اٹھے گی نہ وہ چشم سحر بار کہاں تک
اس شہر دل آزار میں اب دیکھنا یہ ہے
رہتی ہے یوں ہی یورش آزار کہاں تک
خوشنودیٔ صیاد کی خاطر یوں ہی یارو
زندانوں کو کہتے رہیں گلزار کہاں تک
اک روز بالآخر مجھے تسلیم کریں گے
جھٹلائیں گے مجھ کو مرے اغیار کہاں تک
اس طرح تو سر معرکۂ دار نہ ہوگا
چھانو گے وفاؔ کوچۂ دل دار کہاں تک

غزل
یہ کشمکش منعم و نادار کہاں تک
وفا صدیقی