EN हिंदी
یہ کربلا ہے نذر بلا ہم ہوئے کہ تم | شیح شیری
ye karbala hai nazr-e-bala hum hue ki tum

غزل

یہ کربلا ہے نذر بلا ہم ہوئے کہ تم

رئیس امروہوی

;

یہ کربلا ہے نذر بلا ہم ہوئے کہ تم
ناموس قافلہ پہ فدا ہم ہوئے کہ تم

کیوں دجلہ و فرات کے دعوے کہ نہر پر
تشنہ دہن شہید جفا ہم ہوئے کہ تم

مانا کہ سب اجل کے مقابل تھے سر بکف
لیکن شکار تیر قضا ہم ہوئے کہ تم

تم بھی فریب خوردہ سہی پر بصد خلوص
مقتول مکر و صید دغا ہم ہوئے کہ تم

تم شاخ گل سے اڑ کے گئے شاخ گل کی سمت
اپنے نشیمنوں سے جدا ہم ہوئے کہ تم

استاد صبر و نکتہ شناس رضا تھے تم
لیکن قتیل صبر و رضا ہم ہوئے کہ تم

سو بار راستے میں لٹا ہے جو کارواں
اس کارواں کے راہنما ہم ہوئے کہ تم

پیکان نیزہ و رسن و دار ہے گواہ
سر دے کے سر بلند وفا ہم ہوئے کہ تم

پیمان شوق کس نے نباہا قدم قدم
اور حق عاشقی سے ادا ہم ہوئے کہ تم

تم بھی نثار دوست تھے ہم بھی نثار دوست
خود فیصلہ کرو کہ فدا ہم ہوئے کہ تم

تم بھی جلوس موسم گل میں تھے پیش پیش
آوارہ مثل باد صبا ہم ہوئے کہ تم

تم لاکھ ہم سفر تھے پر انصاف تو کرو
یارو ہلاک لغزش پا ہم ہوئے کہ تم