یہ کرب یہ تسلسل بے خواب شب تو ہے
گویا تمہاری یاد کا کوئی سبب تو ہے
انجام جو بھی ہو مرا اس رزم گاہ میں
منسوب تیرے نام سے جشن طرب تو ہے
سرمایۂ حیات مرے پاس کم نہیں
زخم جگر فریب نظر درد سب تو ہے
ملنے میں عذر طرز تکلم بجھا بجھا
پہلے نہ تھی یہ بات مگر خیر اب تو ہے
اے بحر انبساط کہ تو لا زوال ہے
اب بھی ترے قریب کوئی تشنہ لب تو ہے
غزل
یہ کرب یہ تسلسل بے خواب شب تو ہے
راغب اختر