EN हिंदी
یہ کیسی صبح ہوئی کیسا یہ سویرا ہے | شیح شیری
ye kaisi subh hui kaisa ye sawera hai

غزل

یہ کیسی صبح ہوئی کیسا یہ سویرا ہے

تسلیم الہی زلفی

;

یہ کیسی صبح ہوئی کیسا یہ سویرا ہے
ہمارے گھر میں ابھی تک وہی اندھیرا ہے

نہ جانے اب کے برس ہاریوں پہ کیا گزرے
پکی ہے فصل تو بادل بہت گھنیرا ہے

کٹے شجر کو نئی رت کا حال کیا معلوم
کہ واسطہ تو یہاں موسموں سے میرا ہے

پرند کیوں نہ اڑیں اس درخت سے زلفیؔ
کمان بن گئیں شاخیں جہاں بسیرا ہے