یہ کیسی پیاس ہے میں جسم کے سراب میں ہوں
نکل کے جاؤں کدھر کیسے اضطراب میں ہوں
چٹان سر پہ لیے پھر رہا ہوں صدیوں سے
جنم جنم سے نہ جانے میں کس عذاب میں ہوں
تو مجھ کو بھولنا چاہے تو بھول سکتا ہے
میں ایک حرف تمنا تری کتاب میں ہوں
میں کیا ہوں کون ہوں کیا چیز مجھ میں مضمر ہے
کئی حجاب اٹھائے مگر حجاب میں ہوں
بکھر ہی جاؤں گا اک ضربت صدا تو ملے
میں ایک رقص شرر سینۂ رباب میں ہوں
غزل
یہ کیسی پیاس ہے میں جسم کے سراب میں ہوں
خلیل تنویر