یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں
پرندے بھی نہیں ہیں گھونسلوں میں
بھڑک اٹھیں گے شعلے جنگلوں میں
اگر جگنو بھی چمکا جھاڑیوں میں
یہ کن سوچوں کی دیمک رینگتی ہے
مرے ماتھے کی گہری سلوٹوں میں
رقم ہے چہرہ چہرہ جو کہانی
کن افسانوں میں ہے کن ناولوں میں
بہت تنہا ہے وہ اونچی حویلی
مرے گاؤں کے ان کچے گھروں میں
غزل
یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں
خالد صدیقی