یہ کیسی آگ مجھ میں جل رہی ہے
یہ کیسی برف مجھ میں گل رہی ہے
کوئی تسبیح مجھ میں پڑھ رہا ہے
کوئی قندیل مجھ میں جل رہی ہے
مسافر جا چکا لمبے سفر پر
ابھی تک دھوپ آنکھیں مل رہی ہے
سبھی باہوں کو پھیلائے کھڑے ہیں
قیامت ہے کہ ہر پل ٹل رہی ہے
اضافی ہو چکا ہے متن سارا
کہانی حاشیے سے چل رہی ہے
مجھے سب دفن کر کے جا چکے ہیں
مگر یہ سانس اب تک چل رہی ہے
بہت روئے گی یہ لڑکی کسی دن
جو میرے ساتھ ہنس کر چل رہی ہے
غزل
یہ کیسی آگ مجھ میں جل رہی ہے
مرزا اطہر ضیا