EN हिंदी
یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں | شیح شیری
ye kaisa khel hai ab us se baat bhi kar lun

غزل

یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں

مصحف اقبال توصیفی

;

یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں
کہے تو جیت کو اپنی میں مات بھی کر لوں

یہ اختیار مرا تجھ کو جس طرح سوچوں
سحر کو یاد سے اور دل سے گھات بھی کر لوں

یہ دکھ بھی ساتھ چلے گا کہ اب بچھڑنا ہے
اگر سفر میں اسے اپنے ساتھ بھی کر لوں

کسی کا نام نہ لوں اور غزل کے پردے میں
بیان اس کی میں ساری صفات بھی کر لوں

تو میری ذات کا محور مرا مدار بھی تو
یہ مشت خاک اسے کائنات بھی کر لوں