یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں
کہے تو جیت کو اپنی میں مات بھی کر لوں
یہ اختیار مرا تجھ کو جس طرح سوچوں
سحر کو یاد سے اور دل سے گھات بھی کر لوں
یہ دکھ بھی ساتھ چلے گا کہ اب بچھڑنا ہے
اگر سفر میں اسے اپنے ساتھ بھی کر لوں
کسی کا نام نہ لوں اور غزل کے پردے میں
بیان اس کی میں ساری صفات بھی کر لوں
تو میری ذات کا محور مرا مدار بھی تو
یہ مشت خاک اسے کائنات بھی کر لوں

غزل
یہ کیسا کھیل ہے اب اس سے بات بھی کر لوں
مصحف اقبال توصیفی