یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے
چھلک رہے ہیں نگاہوں میں دل کے پیمانے
کہانیوں ہی پہ بنیاد ہے حقیقت کی
حقیقتوں ہی سے پیدا ہوئے ہیں افسانے
نہ اب وہ آتش نمرود ہے نہ شعلۂ طور
تری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے
ہزار تیری محبت نے رہنمائی کی
گزر سکے نہ مقام جنوں سے دیوانے
انہی کو حاصل یک شہر آرزو کہیے
مری نگاہ میں آباد ہیں جو ویرانے
تجھے خبر بھی ہے اس دور خستہ حالی میں
خود اہل دل ہیں مذاق وفا سے بیگانے
جنوں فریب خرد ہے خرد فریب نظر
مجھے کہیں کا نہ رکھا مری تمنا نے
غزل
یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے
حبیب اشعر دہلوی