یہ کب چاہا کہ میں مشہور ہو جاؤں
بس اپنے آپ کو منظور ہو جاؤں
نصیحت کر رہی ہے عقل کب سے
کہ میں دیوانگی سے دور ہو جاؤں
نہ بولوں سچ تو کیسا آئینہ میں
جو بولوں سچ تو چکنا چور ہو جاؤں
ہے میرے ہاتھ میں جب ہاتھ تیرا
عجب کیا ہے جو میں مغرور ہو جاؤں
بہانہ کوئی تو اے زندگی دے
کہ جینے کے لئے مجبور ہو جاؤں
سرابوں سے مجھے سیراب کر دے
نشے میں تشنگی کے چور ہو جاؤں
مرے اندر سے گر دنیا نکل جائے
میں اپنے آپ میں بھرپور ہو جاؤں
غزل
یہ کب چاہا کہ میں مشہور ہو جاؤں
راجیش ریڈی