یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا
اک دائرے میں ہم نے سفر کر لیا تو کیا
دنیا سے میں نے بھی کوئی رغبت نہیں رکھی
اس نے بھی مجھ سے صرف نظر کر لیا تو کیا
خوشبو کبھی گرفت میں آئی نہ آئے گی
پھولوں کو تو نے زیر اثر کر لیا تو کیا
ڈھیروں ستارے اب بھی ترے آس پاس ہیں
میں نے پسند ایک شرر کر لیا تو کیا
دل سے گئی نہ مسند و اسناد کی ہوس
پیہم طواف شہر ہنر کر لیا تو کیا
طالبؔ نشیب شب سے گزر کر دکھا مجھے
طے ہفت خوان بام سحر کر لیا تو کیا
غزل
یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا
طالب انصاری