EN हिंदी
یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا | شیح شیری
ye kar-e-be-samar hai agar kar liya to kya

غزل

یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا

طالب انصاری

;

یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا
اک دائرے میں ہم نے سفر کر لیا تو کیا

دنیا سے میں نے بھی کوئی رغبت نہیں رکھی
اس نے بھی مجھ سے صرف نظر کر لیا تو کیا

خوشبو کبھی گرفت میں آئی نہ آئے گی
پھولوں کو تو نے زیر اثر کر لیا تو کیا

ڈھیروں ستارے اب بھی ترے آس پاس ہیں
میں نے پسند ایک شرر کر لیا تو کیا

دل سے گئی نہ مسند و اسناد کی ہوس
پیہم طواف شہر ہنر کر لیا تو کیا

طالبؔ نشیب شب سے گزر کر دکھا مجھے
طے ہفت خوان بام سحر کر لیا تو کیا