یہ کائنات ترا معجزہ لگے ہے مجھے
خدا نہیں ہے مگر تو خدا لگے ہے مجھے
نہ اپنے ہاتھ اٹھاؤ نہ التماس کرو
کبھی کسی کی بتاؤ دعا لگے ہے مجھے
کسے خبر ہے کہ کب چلتی سانس رک جائے
یہ زندگی بھی فریب قضا لگے ہے مجھے
ترے وصال نے بے چین کر دیا تھا بہت
ترا فراق ہی دل کی دوا لگے ہے مجھے
ہر ایک چیز کی آنکھوں سے خون جاری ہے
تمام خلق خدا غم زدہ لگے ہے مجھے
یہ ناتوانیٔ قلب و جگر پہ بار گراں
گزشتہ وقت کا اک حادثہ لگے ہے مجھے

غزل
یہ کائنات ترا معجزہ لگے ہے مجھے
شہزاد رضا لمس