EN हिंदी
یہ جو اٹھتی کونپل ہے جب اپنا برگ نکالے گی | شیح شیری
ye jo uThti konpal hai jab apna barg nikalegi

غزل

یہ جو اٹھتی کونپل ہے جب اپنا برگ نکالے گی

نظیر اکبرآبادی

;

یہ جو اٹھتی کونپل ہے جب اپنا برگ نکالے گی
ڈالی ڈالی چاٹے گی اور پتا پتا کھا لے گی

ہونہار بروا کے پتے چکنے چکنے ہوتے ہیں
بہت نہیں کچھ تھوڑے ہی دن میں بیل پھنگ کو آلے گی

ابھی تو کیا ہے چھٹپن ہے نادانی ہے بے ہوشی ہے
قہر تو اس دن ہووے گا جب اپنا ہوش سنبھالے گی

ناز ادا اور غمزوں کے کچھ اور ہی کترے گی گل پھول
سین لگاوٹ چتون کا بھی اور ہی عطر نکالے گی

کاجل مہندی پان مسی اور کنگھی چوٹی میں ہر آن
کیا کیا رنگ بناویگی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی

جب یہ تن گدراوے گا اور بازو بانہیں ہوں گے گول
اس دم دیکھا چاہئے کیا کیا پیٹ کے پاؤں نکالے گی

کس کس کا دل دھڑکے گا اور کون ملے گا ہاتھوں کو
پکیں سے جب انگیا میں یہ کچے سیب اچھالے گی

پان چبا اور آئینے میں دیکھ کے اپنے ہونٹوں کو
کیا کیا ہنس ہنس دیوے گی اور کیا کیا دیکھے بھالے گی

خانہ جنگیاں ہوویں گی اور لوگ مریں گے کٹ کٹ کر
شہر کے کوچے گلیوں میں اک شور قیامت ڈالے گی

جب یہ میوہ حسن کا رس رس پک کر ہووے گا تیار
نائکہ اس کی قیمت کا جب دیکھا چاہئے کیا لے گی

سونا روپا سیم و جواہر صبر و دل و دیں ہوش و قرار
آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہی ایک آن میں سب رکھوا لے گی

اپنے وقت جوانی میں یہ شوخ خدا ہی جانے نظیرؔ
کس کس کا زر لوٹے گی اور کس کس کا گھر گھالے گی