EN हिंदी
یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں | شیح شیری
ye jo mujh par nikhaar hai sain

غزل

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

رحمان فارس

;

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں
آپ ہی کی بہار ہے سائیں

آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں
آپ کو اختیار ہے سائیں

تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو
ایک میرا بھی یار ہے سائیں

کسی کھونٹی سے باندھ دیجے اسے
دل بڑا بے مہار ہے سائیں

عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف
سائیں یہ پہلی بار ہے سائیں

کل ملا کر ہے جو بھی کچھ میرا
آپ سے مستعار ہے سائیں

ایک کشتی بنا ہی دیجے مجھے
کوئی دریا کے پار ہے سائیں

روز آنسو کما کے لاتا ہوں
غم مرا روزگار ہے سائیں

وسعت رزق کی دعا دیجے
درد کا کاروبار ہے سائیں

خار زاروں سے ہو کے آیا ہوں
پیرہن تار تار ہے سائیں

کبھی آ کر تو دیکھیے کہ یہ دل
کیسا اجڑا دیار ہے سائیں