EN हिंदी
یہ جو کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے | شیح شیری
ye jo kali ghaTa chhai hui hai

غزل

یہ جو کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے

سدرشن کمار وگل

;

یہ جو کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے
کسی کی زلف لہرائی ہوئی ہے

نظر ان کی بھری محفل میں آ کر
نہ جانے کس سے شرمائی ہوئی ہے

غضب ہے دل کشی حسن و ادا کی
جوانی جوش پر آئی ہوئی ہے

تمہاری یاد بھی آتی نہیں اب
نہ جانے کس کی بہکائی ہوئی ہے

ہجوم یاس سے تنگ آ کے رفعتؔ
تمنا میری مرجھائی ہوئی ہے