یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار
اس کی قسمت پہ ہے خدا کی مار
مرگ دشمن کی آرزو ہی سہی
دل سے نکلے کسی طرح تو غبار
نام بدنام ہو چکا حضرت
کیجیے اب تو جرم کا اقرار
اتفاقی ہے دو دلوں کا ملاپ
کون سنتا ہے ورنہ کس کی پکار
جینا مرنا ہے بن پڑے کی بات
نہ یہ آسان اور نہ وہ دشوار
کس کو پروا کہ ان پہ کیا گزری
زندگی سے جو ہو گئے بیزار
ملتفت خود نہ ہو اگر کوئی
آہ بے سود اور فغاں بے کار
پر سکوں نیند چاہتے ہو نظیرؔ
ساتھ لانا تھا قسمت بیدار
غزل
یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار
نظیر صدیقی