یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی
اس جگہ پر کوئی پری تھی ابھی
سربسر رنگ و نور سے لبریز
اک صراحی یہاں دھری تھی ابھی
خاک کیسی ہے میرے پاؤں تلے
سات رنگوں کی اک دری تھی ابھی
اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے
آہ کس نے یہاں بھری تھی ابھی
سانحہ کوئی یاں سے گزرا ہے
یہ فضا کیوں ڈری ڈری تھی ابھی
میں بساتا تھا اس کے دل میں گھر
اور قسمت میں بے گھری تھی ابھی
کیوں نہ کرتے ہم اس کی دل داری
اس میں کچھ خوئے دلبری تھی ابھی
غزل
یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی
اکبر معصوم