EN हिंदी
یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی | شیح شیری
ye jo ek shaKH hai hari thi abhi

غزل

یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی

اکبر معصوم

;

یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی
اس جگہ پر کوئی پری تھی ابھی

سربسر رنگ و نور سے لبریز
اک صراحی یہاں دھری تھی ابھی

خاک کیسی ہے میرے پاؤں تلے
سات رنگوں کی اک دری تھی ابھی

اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے
آہ کس نے یہاں بھری تھی ابھی

سانحہ کوئی یاں سے گزرا ہے
یہ فضا کیوں ڈری ڈری تھی ابھی

میں بساتا تھا اس کے دل میں گھر
اور قسمت میں بے گھری تھی ابھی

کیوں نہ کرتے ہم اس کی دل داری
اس میں کچھ خوئے دلبری تھی ابھی