یہ جو ہر شے میں تری جلوہ گری ہے اے دوست
یہ بھی میری وسیع النظری ہے اے دوست
خندۂ گل ہے جو زخم جگری ہے اے دوست
موج غم موج نسیم سحری ہے اے دوست
تیری فردوس خیالی ہو مبارک تجھ کو
میری جنت مرے دامن کی تری ہے اے دوست
کیا سمائے غم انساں نگہ انساں میں
عرش پیمائی بھی فہم بشری ہے اے دوست
مجھ کو آتا ہے مصیبت میں غزل خواں ہونا
میری معراج مری بے ہنری ہے اے دوست
جس کو کہتے ہیں تری یاد میں گم ہو جانا
وہ بھی اک سلسلۂ باخبری ہے اے دوست
توڑ کر مجھ کو ذرا آئینۂ قلب ہزار
کتنا مجبور فن شیشہ گری ہے اے دوست
غزل
یہ جو ہر شے میں تری جلوہ گری ہے اے دوست
ہزار لکھنوی