EN हिंदी
یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے | شیح شیری
ye jo har lamha na rahat na sakun hai yun hai

غزل

یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے

ضیا ضمیر

;

یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے
اس کو پانے کا عجب دل میں جنوں ہے یوں ہے

عادتاً کرتا ہے وہ وعدہ خلافی پہلے
پھر بناتا ہے بہانے بھی کہ یوں ہے یوں ہے

مجھ کو معلوم ہے لوٹ آئے گا میری جانب
اس کے جانے پہ بھی اس دل میں سکوں ہے یوں ہے

دل کا کھنچنا جو یہ جاری ہے فقط اس کی طرف
اس کی آنکھوں میں الگ سا ہی فسوں ہے یوں ہے

پوچھتے ہو کہ بھلا کیوں نہیں مایوسی ہے
اس کے ہونٹوں پہ جو آہستہ سی ہوں ہے یوں ہے

بے سبب ہے یہ کہاں دشت نوردی بھی ضیاؔ
اپنے ذمہ بھی کوئی کار جنوں ہے یوں ہے