یہ جو گل رو نگار ہنستے ہیں
فتنہ گر ہیں ہزار ہنستے ہیں
عرض بوسے کی سچ نہ جانو تم
ہم تو اے گلعذار ہنستے ہیں
دل کو دے مفت ہنستے ہیں ہم یوں
جس طرح شرمسار ہنستے ہیں
ہم جو کرتے ہیں عشق پیری میں
خوبرو بار بار ہنستے ہیں
جو قدیمی ہیں یار دوست نظیرؔ
وہ بھی بے اختیار ہنستے ہیں
غزل
یہ جو گل رو نگار ہنستے ہیں
نظیر اکبرآبادی