یہ جو دشمن غم نہانی ہے
یہ بھی اک دوست اپنا جانی ہے
غافل ہم اس سے وہ رہے ہم سے
عمر رفتہ کی قدر دانی ہے
قصر تعمیر کر چکے ہیں بہت
منزل گور اب بنانی ہے
جس کی الفت میں دل دھڑکتا ہے
اب تلک اس کی بد گمانی ہے
اور بھی اک غزل فراسوؔ پڑھ
اب یہ ہنگامہ شعر خوانی ہے

غزل
یہ جو دشمن غم نہانی ہے
فرانس گادلیب کوئن فراسو