EN हिंदी
یہ جی میں آتا ہے جل جل کے ہر زماں ناصح | شیح شیری
ye ji mein aata hai jal jal ke har zaman naseh

غزل

یہ جی میں آتا ہے جل جل کے ہر زماں ناصح

ارشد علی خان قلق

;

یہ جی میں آتا ہے جل جل کے ہر زماں ناصح
کہ آگ لے کے جلا دوں تری زباں ناصح

نہ منع عشق مجازی سے کر مجھے ناداں
یہی ہے بام حقیقت کی نردباں ناصح

میں ترک عشق کمر یک بیک کروں کیوں کر
سمجھ کے مجھ کو نصیحت کرو میاں ناصح

ذلیل ہوگا تو اک روز پند بے جا سے
تجھے خراب کرے گی تری زباں ناصح

خدا کے واسطے بک بک کے میرا مغز نہ کھا
نہ ترک ہوگی کبھی الفت بتاں ناصح

بجائے پند دلاتا ہے حسن پر رغبت
ہزار شکر کہ پایا مزاج داں ناصح

قبول اطاعت پیر مغاں بدل کرنا
ہماری طرح سے ہوتا اگر جواں ناصح

نصیحت ان کی کہانی کی طرح سنتا ہوں
میں جانتا ہوں کہ ہے ایک قصہ خواں ناصح

جہاں حسیں نظر آیا کوئی پسے وہیں ہم
ہمارے ساتھ پھرے گا کہاں کہاں ناصح

ضعیف ہو کے سمجھتا نہیں تعجب ہے
کروں شباب میں ترک الفت بتاں ناصح

کرم کیا ہے غم عشق نے مرے دل میں
میں کس طرح نہ کروں پاس میہماں ناصح

ہم آپ بند کیا کرتے ہیں ہزاروں کو
ہمارے سامنے کھولے گا کیا زباں ناصح

بتوں کا کلمہ پڑھے تو ابھی ہماری طرح
کمال عشق اگر پختہ ہو عیاں ناصح

میں وہ ہوں عاشق دیوانہ گر مجھے کی پند
برنگ جیب اڑا دوں گا دھجیاں ناصح

کہیں ہماری طرح یہ بھی پھنس گیا شاید
کچھ آج کل ہے بہت ہم پہ مہرباں ناصح

قلقؔ نہ حرف نصیحت زباں پہ لائے وہ پھر
جو سن لے میری محبت کی داستاں ناصح