یہ جام و بادہ و مینا تو سب دلاسے ہیں
لبوں کو دیکھ وہی عمر بھر کے پیاسے ہیں
کرو جو یاد تو ہم سے بھی نسبتیں ہیں تمہیں
وہ نسبتیں جو کف پا کو نقش پا سے ہیں
ذرا میں زخم لگائے ذرا میں دے مرہم
بڑے عجیب روابط مرے صبا سے ہیں
ترے بغیر بھی کٹتی رہی ذرا نہ رکی
شکایتیں مجھے عمر گریز پا سے ہیں
نہ بہہ سکیں تو رگوں میں رواں دواں نشتر
نکل بہیں تو یہ آنسو ذرا ذرا سے ہیں

غزل
یہ جام و بادہ و مینا تو سب دلاسے ہیں
خورشید رضوی