یہ عطر بیزیاں نہیں نسیم نوبہار کی
اڑا کے لائی ہے صبا شمیم زلف یار کی
بس اتنی کائنات ہے حیات مستعار کی
شباب ہے حباب کا بہار ہے شرار کی
فریب کاریاں نہ پوچھ جوش انتظار کی
تمام شب سنا کئے صدا خرام یار کی
یہ مختصر سی داستاں ہے جبر و اختیار کی
کرشمہ ساز کوئی ہو خطا گناہ گار کی
حقیقت فریب حسن عالم آشکار کی
یہ ابتدائے فتح ہے جنون پختہ کار کی
مجھے تو آنکھ کھلتے ہی قفس کی تیلیاں ملیں
مری بلا سے گر چمن میں فصل ہے بہار کی
ترے نثار زخم عشق کچھ وہ لذتیں ملیں
بلائیں لے رہا ہے دل خدنگ جاں شکار کی
رہ طلب کی لذتیں ہیں اور ہمت آفریں
یہ تلخیاں ہیں تلخیاں شراب خوش گوار کی
سہیلؔ تیری شاعری ہے یا فسون سامری
روانیاں ہیں نظم میں خرام جوئے یار کی
غزل
یہ عطر بیزیاں نہیں نسیم نوبہار کی
اقبال سہیل