یہ عشق اک امتحان تو لے میں پاس کر لوں
حدود ہوں تو حدود ساری کراس کر لوں
بہت کٹھن مسئلوں کی تحلیل بھی ہے ممکن
اگر میں اک مسئلے کے ٹکڑے پچاس کر لوں
تمام قدرت کھڑی ہے امکاں کے نظریے پر
قدم اٹھانے سے پہلے سکے سے ٹاس کر لوں
کسان کھیتوں سے گھر نہ جا پایا سوچتا تھا
اکٹھی پہلے میں عمر بھر کی کپاس کر لوں
یہ زندگی ممکنات کا اک ہرا شجر ہے
کوئی تو امید باندھ لوں کوئی آس کر لوں
شجاعتوں کے لگیں گے سب واقعات جھوٹے
میں خود کو گر مبتلائے خوف و ہراس کر لوں
سفر تو کٹ جائے گا مگر کیا سفر کٹے گا
سو اپنے ہم راہ چند پھولوں کی باس کر لوں
میں آنکھ میں منتقل کروں روشنی کو ذیشانؔ
مگر یہ بہتر ہے دھوپ کا انعکاس کر لوں
غزل
یہ عشق اک امتحان تو لے میں پاس کر لوں
ذیشان ساجد