یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا
جو آشنا تھا کبھی آج اجنبی سا لگا
وہ ایک سایہ جو بے حس تھا مردہ کی مانند
قریب آیا تو اک عکس زندگی سا لگا
خود اپنی لاش لیے پھر رہا تھا کاندھوں پر
وہ آدمی تو نہ تھا پھر بھی آدمی سا لگا
وہ اک وجود جو پالے ہوئے تھا سانپوں کو
نظر کی زد میں جو آیا تو بانسری سا لگا
تمام عمر جسے پیک دوستی سمجھا
ہوا جو تجربہ وہ نقش دشمنی سا لگا
وہ ایک کرب مسلسل جو دل جلاتا تھا
تم آ کے پاس جو بیٹھے تو سر خوشی سا لگا
بظاہر ایک ہی چہرہ تھا سامنے لیکن
کبھی کسی کا لگا تو کبھی کسی کا لگا
مرے شعور کی کم مائیگی کہ اے صادقؔ
یقین بھی کبھی تصویر وہم ہی سا لگا
غزل
یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا
صادق اندوری