یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
میری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی
نہیں مجھ سے جب تعلق تو خفا خفا سے کیوں ہیں
نہیں جب مری محبت تو یہ کیسی بد گمانی
مرا غم رلا چکا ہے تجھے بکھری زلف والے
یہ گھٹا بتا رہی ہے کہ برس چکا ہے پانی
ترا حسن سو رہا تھا مری چھیڑ نے جگایا
وہ نگاہ میں نے ڈالی کہ سنور گئی جوانی
مری بے زبان آنکھوں سے گرے ہیں چند قطرے
وہ سمجھ سکیں تو آنسو نہ سمجھ سکیں تو پانی
ہے اگر حسیں بنانا تجھے اپنی زندگی کو
تو نذیرؔ اس جہاں کو نہ سمجھ جہان فانی
غزل
یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
نذیر بنارسی