EN हिंदी
یہ ان دنوں جو ہم سے اتنی رکھائیاں ہیں | شیح شیری
ye in dinon jo humse itni rukhaiyan hain

غزل

یہ ان دنوں جو ہم سے اتنی رکھائیاں ہیں

مرزا نعیم بیگ جوان

;

یہ ان دنوں جو ہم سے اتنی رکھائیاں ہیں
شاید کسی نے باتیں کچھ کچھ سجھائیاں ہیں

اے عندلیب سچ کہہ کیا فصل گل پھر آئی
فوجیں جنوں کی ہم پر کیسی چڑھائیاں ہیں

کس بے ادب نے تم سے گل بازی آج کی ہے
منہ پر تمہارے چوٹیں کیا سخت آئیاں ہیں

دیوار و در کی چھاتی سوراخ ہو گئی ہے
کیا روزنوں سے اس نے آنکھیں لڑائیاں ہیں

پیوستہ ابرو اس کی میں دیکھ کر یہ سمجھا
دو شاخیں ہیں کہ جھک کر ملنے کو آئیاں ہیں