یہ حکایت تمام کو پہنچی
زندگی اختتام کو پہنچی
رقص کرتی ہوئی نسیم سحر
صبح تیرے سلام کو پہنچی
روشنی ہو رہی ہے کچھ محسوس
کیا شب آخر تمام کو پہنچی
شب کو اکثر کلید مے خانہ
شیخ عالی مقام کو پہنچی
شہر کب سے حصار درد میں ہے
یہ خبر اب عوام کو پہنچی
پہلے دو ایک قتل ہوتے تھے
نوبت اب قتل عام کو پہنچی
سب کا انجام ایک جیسا ہے
صبح روشن بھی شام کو پہنچی
موت بالکل قریب ہے شاید
صبح کو پہنچی شام کو پہنچی
غزل
یہ حکایت تمام کو پہنچی
اسلم فرخی