یہ حسیں لوگ ہیں تو ان کی مروت پہ نہ جا
خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا
صورت شمع ترے سامنے روشن ہیں جو پھول
ان کی کرنوں میں نہا ذوق سماعت پہ نہ جا
دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا
جی کو بھا جائے تو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا
اتنا کم ظرف نہ بن اس کے بھی سینے میں ہے دل
اس کا احساس بھی رکھ اپنی ہی راحت پہ نہ جا
دیکھتا کیا ہے ٹھہر کر مری جانب ہر روز
روزن در ہوں مری دید کی حیرت پہ نہ جا
تیرے دل سوختہ بیٹھے ہیں سر بام ابھی
بال کھولے ہوئے تاروں بھری اس چھت پہ نہ جا
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا
غزل
یہ حسیں لوگ ہیں تو ان کی مروت پہ نہ جا
اعتبار ساجد