یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں
انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگار شام بہار
جو ایک رنگ سے تصویر جاں بناتے ہیں
نگاہ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو
جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں
ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت
تو گل تراشتے ہیں تتلیاں بناتے ہیں
کسی طرح نہیں جاتی فسردگی دل کی
تو زرد رنگ کا اک آسماں بناتے ہیں
دل ستم زدہ کیا ہے لہو کی بوند تو ہے
اس ایک بوند کو ہم بے کراں بناتے ہیں
بلا کی دھوپ تھی دن بھر تو سائے بنتے تھے
اندھیری رات ہے چنگاریاں بناتے ہیں
ہنر کی بات جو پوچھو تو مختصر یہ ہے
کشید کرتے ہیں آگ اور دھواں بناتے ہیں
غزل
یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
احمد مشتاق