EN हिंदी
یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد | شیح شیری
ye hadisa to hua hi nahin hai tere baad

غزل

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد

کفیل آزر امروہوی

;

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد

ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد

مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد

خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر
وہ خط تجھے بھی لکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد

کہاں سے مہکے گی ہونٹوں پہ لمس کی خوشبو
کسی کو میں نے چھوا ہی نہیں ہے تیرے بعد

چراغ پلکوں پہ آذرؔ کسی کی یادوں کا
قسم خدا کی جلا ہی نہیں ہے تیرے بعد