EN हिंदी
یہ گھر جو ہمارے لیے اب دشت جنوں ہے | شیح شیری
ye ghar jo hamare liye ab dasht-e-junun hai

غزل

یہ گھر جو ہمارے لیے اب دشت جنوں ہے

شمس فرخ آبادی

;

یہ گھر جو ہمارے لیے اب دشت جنوں ہے
آباد بھی رہتا تھا کبھی اپنوں کے دم سے

سو بار اسی طرح میں مر مر کے جیا ہوں
دیرینہ تعلق ہے مرا مقتل غم سے

یہ جینا بھی کیا جینا ہے سر پھوڑنا ٹھہرا
قسمت کو ہے جب واسطہ پتھر کے صنم سے

بس اتنا غنیمت رہے ان سے یہ تعلق
ہم اپنے کو بدلیں نہ وہ باز آئیں ستم سے

آواز نہ دو شمسؔ کو تڑپے گا بچارہ
آزاد تو ہو جائے ذرا بند الم سے