یہ گھر جو ہمارے لیے اب دشت جنوں ہے
آباد بھی رہتا تھا کبھی اپنوں کے دم سے
سو بار اسی طرح میں مر مر کے جیا ہوں
دیرینہ تعلق ہے مرا مقتل غم سے
یہ جینا بھی کیا جینا ہے سر پھوڑنا ٹھہرا
قسمت کو ہے جب واسطہ پتھر کے صنم سے
بس اتنا غنیمت رہے ان سے یہ تعلق
ہم اپنے کو بدلیں نہ وہ باز آئیں ستم سے
آواز نہ دو شمسؔ کو تڑپے گا بچارہ
آزاد تو ہو جائے ذرا بند الم سے
غزل
یہ گھر جو ہمارے لیے اب دشت جنوں ہے
شمس فرخ آبادی