یہ گرم ریت یہ صحرا نبھا کے چلنا ہے
سفر طویل ہے پانی بچا کے چلنا ہے
بس اس خیال سے گھبرا کے چھٹ گئے سب لوگ
یہ شرط تھی کہ قطاریں بنا کے چلنا ہے
وہ آئے اور زمیں روند کر چلے بھی گئے
ہمیں بھی اپنا خسارہ بھلا کے چلنا ہے
کچھ ایسے فرض بھی ذمے ہیں ذمہ داروں پر
جنہیں ہمارے دلوں کو دکھا کے چلنا ہے
شناسا ذہنوں پہ طعنے اثر نہیں کرتے
تو اجنبی ہے تجھے زہر کھا کے چلنا ہے
وہ دیدہ ور ہو کہ شاعر کہ مسخرہ کوئی
یہاں سبھی کو تماشہ دکھا کے چلنا ہے
وہ اپنے حسن کی خیرات دینے والے ہیں
تمام جسم کو کاسہ بنا کے چلنا ہے
غزل
یہ گرم ریت یہ صحرا نبھا کے چلنا ہے
احمد کمال پروازی